Google AdSense

انسان کی تقدیر کا راز کیا ہے؟


تقدیر کا معنی

 

دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور بندے جو کچھ کرتے ہیں نیکی ،بَدی وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی (خدا کا قدیم علم جو ہمیشہ سے ہے )مطابق ہوتا ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔

 

تقدیر کا ثبوت

 

تقدیرکا ثبوت قراٰن وحدیث میں موجود ہے جیساکہ اس آیتِ مبارکہ میں ہے: (ان اللہ علی لک شئی قدیر)کنزالایمان:بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔(پ27،القمر:49)

حضورِ اکرم، سیّدِ دوعالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِیمان کےمتعلق پوچھنے والےکےجواب میں چھ چیزیں اِرشاد فرمائیں:

(1)اللہ(عَزَّوَجَلَّ)(2)فرشتوں(3)اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی نازل کردہ کتابوں (4)رسولوں (5)قیامت کے دن اور (6)اچھی یا بُری تقدیر کا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہونے پر ایمان لانا۔(مسلم ، ص 33،حدیث:93)

 

 

تقدیر کے انکارکا حکم

تقدیر کا انکار کفرہے(منح الروض الازہر، ص69) حضوراکرمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےتقدیرکاانکار کرنے والوں کواس”اُمّت کا مجوس“قرار دیاہے۔(ابو داؤد، ج 4،ص294،حدیث:4691)

 

تقدیر کے متعلق بحث کرنا منع ہے

یاد رہے کہ عقیدۂ تقدیر، اسلامی عقائد میں نہایت نازُک اورپیچیدہ ہے۔ اس کے بارے میں بحث کرنے، کیوں؟ اور کیسے؟ کی طرح کے سوالات کرنے سے منع کیا گیاہے جیساکہ ترمذی شریف میں ہے: حضرت سیّدناابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نےفرمایا کہ حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے حالانکہ ہم مسئلۂ تقدیر پر بحث کررہے تھے تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوئے حتّٰی کہ چہرہ ٔ انور سُرخ ہوگیا گویا کہ رُخساروں میں انار نچوڑ دیئے گئے ہیں اور فرمایا کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے؟ یا میں اسی کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیاہوں؟ تم سے پہلے لوگوں نے جب اس مسئلہ میں جھگڑے کئے تو ہلاک ہی ہوگئے میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلہ میں نہ جھگڑو۔ (ترمذی،ج 4،ص51، حدیث:2140)

 

تقدیر پرایمان کے فوائد

 

·       (1)مصائب وبیماریوں میں صبر کرنا اور خود کشی جیسےحرام کام سے محفوظ رہنا، کیونکہ ان کاآنا تقدیر کے مطابق اورآزمائش ہے۔

·       (2) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تقسیم اور مشیئت پر راضی رہنا۔

·       (3)انسان ماضی کی محرومیوں پَر پُرملال، حال کے حالات میں پریشان اورمستقبل سے خوف زدہ نہیں رہتا۔

·       (4) تقدیر پر ایمان لانے والا مخلوق کے بجائے خالق سے لَو لگاتاہے۔

·       (5) تقدیر پر ایمان”حسد“ کا بہترین علاج ہے۔

 

اللہ عَزَّوَجَل سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی بھر اہلِ سنّت و جماعت کے عقائدِ حَقَّہ اختیار کرنے کی توفیق اور ان ہی پر موت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

 

تقدیر کا کیا مفہوم ہے

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز تقدیر میں لکھ دی ہے ، یہاں تک کہ آدمی نیک بخت ہوگا یا بدبخت یہ بھی لکھا جاچکا ہے ؛ لیکن بندے کا کام یہ نہیں کہ وہ ”تقدیر“ کی بنا پر بیٹھ جائے اور محنت ومشقت نہ کرے ؛ بلکہ بندے کو حکم ہے کہ وہ عمل میں سعی کرے چنانچہ

ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ”تقدیر“ کے حوالے سے اس طرح کی بات بتلائی تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تو پھر ہم عمل کیوں کریں؟ کیوں ہم تقدیر پر اعتماد کرکے نہ بیٹھ جائیں؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم لوگ عمل اور کام نہ چھوڑو، مسلسل عمل جاری رکھو، ہرایک کے لیے وہ چیز آسان کردی جائے گی جس کے لیے اسے پیدا کیا کیا۔

 

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما منکم من نفس إلاّ وقد علم منزلہا من الجنّة والنار، قالوا: یا رسول اللہ فلِمَ نَعْمَل؟ أفلا نتکل؟ قال: لا، اعملوا، فکل میسّر لما خُلِق لہ، ثم قرأ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی إلی قولہ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرَی (مسلم، رقم: ۲۶۴۷، باب کیفیة خلق الآدمی فی بطن أمّہ)؛

لہٰذا آدمی کو ہمت سے کام لیناچاہیے ، تقدیر کے بارے میں زیادہ نہیں سوچناچاہیے ،تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے ، تقدیر کے سلسلہ میں بحث ومباحثہ یا غور وخوض سے آدمی گمراہ ہوسکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں اس کے تعلق سے کلام کرنے کی ممانعت آئی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دفعہ کسی گفتگو میں مشغول تھے ،

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، فرمایا کہ کیا گفتگو کررہے تھے ؟ عرض کیا کہ تقدیر کے مسئلہ میں بات تھی، چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ کیا تم اس کے لیے پیدا کیے گئے ہو یا میں اس کے لیے بھیجا گیا ہوں، ہلاک ہوگئے وہ لوگ جنھوں نے اس میں گفتگو کی۔ (مشکاة: ۲۲)

 

وقال فی المرقاة: قال فی شرح السنة: الإیمان بالقدر فرض لازم وہو أن یعتقد أن اللہ تعالی: خالق أعمال العباد خیرہا وشرہا وکتبہا فی اللوح المحفوظ قبل أن خلقہم والکل بقضاء ہ وقدرہ وإرادتہ ومشیتہ غیر أنہ یرضی الإیمان والطاعة ووعد علیہما الثواب ولا یرضی الکفر والمعصیة وأوعد علیہما العقاب، والقدر سر من أسرار اللہ لم یطلع علیہ ملکا مقربًا ولا نبیًا مرسلاً (مرقاة: ۲۵۶/۱)؛ لہذا آپ بھی اس چکر میں نہ پڑیں اور عمل کرتے رہیں ۔

 

تقدیر پر بندہ کا اختیار

 

ہرچیز اللہ نے آدمی کی قسمت میں لکھ دینے کے باوجود آدمی کو ایک اختیار دیا ہے اسی اختیار پر اس کی گرفت ہوگی یا اس کو اچھا بدلہ ملے گا، یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ اگر آدمی بالکل مجبور پتھر کی طرح ہوتا تو اس سے حساب وکتاب کرنا ہی لاحاصل تھا، اللہ رب العزت نے جب سب کچھ لکھنے کے باوجود انسان کو حساب وکتاب کا مکلف بنایا ہے تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انسان بالکل مجبور بھی نہیں ہے ، آدمی کبھی بھی دنیاوی کاموں میں تقدیر کا سہارا لے کر گھر نہیں بیٹھتا۔ مسلمان صرف شرعی اور دینی کاموں میں تقدیر کا سہارا لے کر نماز وغیرہ ترک کرتے ہیں۔

 

واللہ تعالیٰ اعلم

 


Post a Comment

1 Comments